Thursday, September 17, 2015

Khayal Bari, First Edition, Back Cover

4 comments:

  1. Cemendtaur, I am testing my Urdu typing skills. Will post these reviews here in Unicode. This will help in online searches.

    ReplyDelete
  2. خیالات کی اس بارش کے مطالعے کے بعد آپ گواہی دیں گے کہ علی حسن نے عبادت لوح و قلم کا حق ادا کیا ہے اور فکر و نظر کے بے شمار موضوعات کے تجزیاتی نتائج کو تخلیقی زبان دے کر وہ ادب میں ایک نئی صنف کی تشکیل کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔ سردست یہ انداز تحریر، یہ صنف بے نام ہے لیکن نام میں کیا رکھا ہے۔ پڑھنے والوں کو تو کام سے کام ہوتا ہے اور مجھے امید ہے علی حسن اپنے اسلوب کے حوالے سے اپنے اس دیوانے کا کوئی اچھا سا نام ضرور رکھ لیں گے۔
    سرشار صدیقی

    ReplyDelete

  3. ادب ایک بہتی ہوئی ندی میں تیرتی ہوئی کشتی کے مانند ہے جس میں دنیا بھر کے لکھنے والے اپنا اپنا تخلیقی سرمایہ جمع کرتے جارہے ہیں۔ علی حسن سمندطور ایک ایسا نوجوان ہے جس کی بے چین روح اسے ملکوں ملکوں لیے پھرتی ہے مگر وہ جہاں جاتا ہے پاکستان اس کے ساتھ ساتھ جاتا ہے۔ وہ بھی بہتی ہوئی ندی کی طرح جغرافیائی حدود سے آزاد ہے مگر قدم قدم پر پاکستان سے اس کا اٹوٹ رشتہ اس کا دامن پکڑ کر ضدی بچے کی طرح اسے دوسرے ملکوں کی خوبیاں دکھاتا رہتا ہے اور وہ اپنے ملک کی پس ماندگی سے دوسرے ملکوں کی خوبیوں کا موازنہ کرنے لگتا ہے۔ یوں اپنے ملک کی حالت سنوارنے کا جنون اس پہ سنگ باری شروع کردیتا ہے، مایوسیاں ژالہ باری کے آتی ہیں اور یوں وہ اپنے ہی خیالات کی گولہ باری سے اپنے اندہام کی سمسیائوں سے جوجھنے لگتا ہے۔ خیال باری سمسیائوں سے جوجھنے کی ایک مختصر کہانی ہے۔ ہم اسے ادب کے کس شعبے میں سجا سکتے ہیں، یہ وقت بتائے گا۔
    امرائو طارق

    ReplyDelete
  4. علی حسن سمندطور اپنے ناول راستہ جو منزل ہے کے بعد خیال باری کے ساتھ ہمارے سامنے ہیں۔ ان کے سوچتے ہوئے ذہن پہ رشک آتا ہے اس لیے کہ وہ اپنی سوچوں کو ایک نوع کی دانش میں تبدیل کردیتے ہیں۔ اپنے مشاہدات، تجربات، اور مطالعہ کو گہرائی فکر کے ساتھ بیان کردینا فہم کی تیزرفتاری کی دلیل ہے۔ خیال باری ایسی چھوٹی بڑی انشائیاتی کہانیاں ہیں۔ مجموعی طور پر انہیں بلیغیات کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔ اس قسم کی تحریریں جرمن اور یورپ کے دیگر ادیبوں کے یہاں مل جاتی ہیں۔ نسبتا کم تجربہ کار علی حسن سمندطور کا کمال ہے کہ انہوں نے ایسے تمام موضوعات اس کتاب میں سمیٹ دیے ہیں جن کا تعلق ہماری پچاس سالہ پرآشوب تاریخ سے ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے تمام تر سماجی، معاشرتی، سیاسی، تہذیبی تمدنی مسائل کا احاطہ کیا ہے جن سے ہماری قوم نبردآزما ہے۔
    وہ ان مسائل کو چھوٹے چھوٹے منظرناموں میں تبدیل کر کے ایک بڑا دائرہ بناتے ہیں اور ان سے مثبت و تعمیری نتائج نہ صرف اخذ کرتے ہیں بلکہ پڑھنے والوں کو بھی انہیں خطوط پر سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ان کے یہاں زندگی بے مقصد، لایعنی اور بے کار چیز نہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے بین السطور زندگی کی اعلی اقدار کی جانب اشارے کیے ہیں۔ خیال باری میں اکثر خیالات ایسے ہیں جنہیں ضرب المثل کا درجہ حاصل ہوسکتا ہے، اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ نثرنگاروں کے فقرے، ڈرامہ نگاروں کے مکالمے، اور شعرا کے مصرعے ضرب المثل بنتے رہے ہیں۔
    ڈاکٹر ممتاز احمد خان

    ReplyDelete